ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
خوش فہمیوں کے فریم میں چہرہ تو کوئی اور تھا
خوش فہمیوں کے فریم میں چہرہ تو کوئی اور تھا
آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو کوئی اور تھا
ہجوم ِرنج وبلاہے تو خیر ےوں ہی سہی
ہجوم ِرنج وبلاہے تو خیر یوں ہی سہی
یہی خدا کی رضا ہے تو خیر یوں ہی سہی
شہرۂ آفاق سخنور بشیر بدر کے حالِ زار کے تناظر میں ایک فی البدیہہ غزل
بتائیں کیسے اپنا حال کیا ہے
’’ ہماری بے بسی کی انتہا ہے‘‘
سفر میں آتے ہیں مجھ کو نظر در و دیوار
سفر میں آتے ہیں مجھ کو نظر در و دیوار
ہیں میرے ساتھ مرے ہمسفر در و دیوار
ترے دیار میں رہتے ہیں کچھ کمال کے لوگ
ترے دیار میں رہتے ہیں کچھ کمال کے لوگ
ذرا ترے تو ذرا ہیں مرے خیال کے لوگ
شمعِ محبت آپ جلا کر تو دیکھئے
شمعِ محبت آپ جلا کر تو دیکھئے
دشمن کو اپنے دل سے لگا کر تو دیکھئے
سَودا یہ ان کے عشق کا مہنگا پڑا مجھے
سَودا یہ انکے عشق کا مہنگا پڑا مجھے
تنہائیوں کے سائے میں رہنا پڑا مجھے
اے ابنِ اضطراب، دلِ ناصبور صبر
اے ابنِ اضطراب، دلِ ناصبور صبر
تکلیف میں ہے باعثِ کیف و سرور صبر
دلربا سامنے آؤ تو کوئی بات بنے
دلربا سامنے آؤ تو کوئی بات بنے
رخ سے پر دے کو اٹھاؤ تو کوئی بات بنے
خنجر کی ضرورت ہے نہ چاقو کی ضرورت
خنجر کی ضرورت ہے نہ چاقو کی ضرورت
دشمن کو مٹانے کو ہے بازو کی ضرورت
یہ گماں ہے کہ کام یاب ہوں میں
یہ گماں ہے کہ کام یاب ہوں میں
ہر گھڑی محوِ انقلاب ہوں میں
کیفی اعظمی اور احمد علی برقی اعظمی
شاید کہ لوگ مجھ کو بھی پہچاننے لگیں
کیفی کی اس زمین میں مشقِ سخن کے بعد
رہوں سدا ترے دل کے حصار میں شامل
رہوں سدا ترے دل کے حصار میں شامل
یہ چاہ بھی ہے دلِ داغدار میں شامل
روٹھی ہوئی اس سے زندگانی دیکھی نہیں جاتی
روٹھی ہوئی اس سے زندگانی دیکھی نہیں جاتی
آنکھوں میں ٹہری ہجر کی کہانی دیکھی نہیں جاتی
عجب نہیں ہے ، کہ الزام میں نہیں آتا
عجب نہیں ہے ، کہ الزام میں نہیں آتا
ہمارا نا م کسی نام میں نہیں آتا
مہارے پہلو سے پہلو اگر لگا ہوتا
مہارے پہلو سے پہلو اگر لگا ہوتا
ہمارے ساتھ تمہارا بھی کچھ بھلا ہوتا
سچ تو یہ ہے شوق میرا کار فرما ہو گیا
سچ تو یہ ہے شوق میرا کارفرما ہو گیا
کل جو میرا حال تھا وہ آج ان کا ہو گیا
اپنے من کی بات آتے ہیں سنانے کے لئے
اپنے من کی بات آتے ہیں سنانے کے لئے
سب کھڑے ہیں ہاں میں ہاں ان کی مِلانے کے لئے
بے سہارا انجمن میں تیرا آنا یاد ہے
بے سہارا انجمن میں تیرا آنایاد ہے
روتے روتے ترستے تیرا آنا یاد ہے
اُس سے بچھڑ کے جس گھڑی مَیں دُور ہو گیا
اُس سے بچھڑ کے جس گھڑی مَیں دُور ہو گیا
سینے سے گویا دل مِرا مفرور ہو گیا