ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
ایک زمین کئی شاعر: احمد علی برقی اعظمی اور میر تقی میر
جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
مجھ کو تو کچھ اور دِکھا ہے آنکھوں کے اُس پار
مجھ کو تو کچھ اور دِکھا ہے آنکھوں کے اُس پار
تم بتلاؤ آخر کیا ہے آنکھوں کے اُس پار
ترے خیال سے نکلیں تو داستاں ہو جائیں
ترے خیال سے نکلیں تو داستاں ہو جائیں
نصیب ہو جو ترا ساتھ، جاوداں ہو جائیں
سلگ سلگ کے نہ یوں ہی دھواں دھواں ہو جائیں
سلگ سلگ کے نہ یوں ہی دھواں دھواں ہو جائیں
تم ایک پھونک تو مارو کہ ضو فشاں ہو جائیں
کوئی مقام بھی منزل نہیں ہوا اب تک
کوئی مقام بھی منزل نہیں ہوا اب تک
مجھے جو چاہئے حاصل نہیں ہوا اب تک
خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں
خود سے سوال کرتے ہیں ہربار کیا کریں
کس پر کریں یقیں، نہ کریں کس پہ اعتبار
برقیؔ ہرایک سمت ہیں عیار کیا کریں
درد بھی آج تو حیراں ہے خدا خیر کرے
درد بھی آج تو حیراں ہے خدا خیر کرے
قلب مظطر بھی پریشان ہے خدا خیر کرے
تھے صورتِ سوال سبھی اُس کے گھر کے پاس
تھے صورتِ سوال سبھی اُس کے گھر کے پاس
گویا ہر اِک جواب تھا دیوار و در کے پاس
جگر مراد آبادی اور احمد علی برقی اعظمی
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
میں جب بھی کوئی منظر دیکھتا ہوں
میں جب بھی کوئی منظردیکھتا ہوں
ذرا اوروں سے ہٹ کر دیکھتا ہوں
ایک صدا سی کانوں میں گونجتی رہتی ہے
ایک صدا سی کانوں میں گونجتی رہتی ہے
جیسے ہر کسی سے پتہ میرا پوچھتی رہتی ہے
حیرت ہے کہ ہر آدمی ناکام بہت ہے
افکار میں یہ شعلئہ گلفام بہت ہے
آشفتہ سرِ دل مِرا بدنام بہت ہے
پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ
پیکرِ مہر و وفا روحِ غزل یعنی توٗ
مِل گیا عشق کو اِک حُسن محل یعنی توٗ
میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا دی گئی ہے
میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا دی گئی ہے
پھر مرے پاؤں کی زنجیر ہلا دی گئی ہے
اک فقط تیرے سوا اور بھی دیکھا کیا ہے
اک فقط تیرے سوا اور بھی دیکھا کیا ہےتیری صورت کا مری آنکھ سے رشتا کیا ہے
اس کربِ مسلسل سے نہیں کوئی مَفَر بھی
اس کربِ مسلسل سے نہیں کوئی مَفَر بھی
گُھٹ گُھٹ کے شبِ ہجر میں جاتا نہیں مَر بھی
مرزا اسداللہ خان غالب اور احمد علی برقی اعظمی
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
ایک زمین کئی شاعر: جگر مراد آبادی اور احمد علی برقی اعظمی
غزل سرائی میں ہے پیروِ جگر برقی
نہ اِس کا طرز کسی کو کبھی گراں گذرے
خود میں یوں ہی نہ رائگاں ہو جاؤں
خود میں یوں ہی نہ رائگاں ہو جاؤں
بند توڑوں رواں دواں ہو جاؤں
چاہتِ زیست لیے جیتے ہیں مر جاتے ہیں
ہم بھی گمنام کسی نام پہ مرجاتے ہیں
اور مر کر بھی تِرا نام ہی کر جاتے ہیں
میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا دی گئی ہے
میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا دی گئی ہے
پھر مرے پاؤں کی زنجیر ہلا دی گئی ہے
نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر
نہ خود سری میں حسیں روز و شب گزارا کر
زمینِ دل پہ کبھی پاؤں بھی پَسارا کر
کاش میں سچ مچ زندہ ہوتا
کاش میں سب کے جیسا ہوتا / میں بھی اندھا، بہرا ہوتا // دنیا بیحد ٹیڑھی ہوتی / گر میں تھوڑا سیدھا ہوتا
ایک بے تکی سی غزل
جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں کی روائت چھوڑ دی ہے
بس یوں سمجھ لیجئےکہ محبت کرنا چھوڑ دی ہے
کیا کہوں کس طرح کس قدر مجھ کو تکلیف دیتے ہیں وہ
کیا کہوں کس طرح کس قدر مجھ کو تکلیف دیتے ہیں وہ
خود کو تکلیف میں ڈال کر مجھ کو تکلیف دیتے ہیں وہ