ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
تسخیرِ کائنات سے آگے کی سوچنا
تسخیرِ کائنات سے آگے کی سوچنا
لیکن نہ ایک ذات سے آگے کی سوچنا
ایک فی البدیہہ غزل مسلسل: نذرِ صوفی غلام مصطفی تبسم
وہ ہیں آج بالائے بام اللہ اللہ
مئے عشق کا لے کے جام اللہ اللہ
ہر خطا اس کی ہمیشہ درگزر کرتی ہوئی
ہر خطا اس کی ہمیشہ درگزر کرتی ہوئی
فاصلوں کو دل کی چاہت مختصر کرتی ہوئی
میں زمیں کی پروردہ، اور وہ آسمانی ہے
میں زمیں کی پروردہ، اور وہ آسمانی ہے
نیلگوں ہے پَگ اسکی، اوڑھنی یہ دھانی ہے
حُسن کی وادی عشق کا موسم تم اور ہم
حُسن کی وادی عشق کا موسم تم اور ہم
سُندرتا اور پریم کا سنگم تم اور ہم
ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے
کیا عبث کوہ و بیاباں کی مسافت کی جائے
شہرہی دشت ہے اب شہر میں وحشت کی جائے
کون کرے مٹی کی حفاظت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کون کرے مٹی کی حفاظت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کیسے بڑھائیں دیش کی زینت میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں
ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں
غم سے تِرے نجات نہیں چاہتا تھا میں
ترے نقش ِ پا کی تلاش میں یہ بجا ہے آبلہ پا ہوئے
ترے نقش ِ پا کی تلاش میں یہ بجا ہے آبلہ پا ہوئے
ترے جبر سے تو نکل گئے تری قید سے تو رہا ہوئے
کیا عشق ہے جب ہو جائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
کیا عشق ہے جب ہو جائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
جب ذہن کو دل سمجھائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
کلیوں کا قتل عام نہ خونِ صبا کرے
کلیوں کا قتل عام نہ خونِ صبا کرے
گلشن پہ ظلم کی نہ وہ یوں انتہا کرے
حالات حاضرہ کے تناظر میں ایک فی البدیہہ طرحی غزل
خود سے ہم آج بناتے ہیں تماشا اپنا
آج دنیا میں نہیں کوئی شناسا اپنا
حیف ہے صبح کا بادل ہی جو کالا نکلا
حیف ہے صبح کا بادل ہی جو کالا نکلا
چادرِ شب میں لپٹ کریہ سویرا نکلا
مومن تو بن جائے گا
احسان جو کرپائے گا ہر کسی کے ساتھ
مومن تو بن جائے گا گر جو یہ کرپائےگا
جاری ہے سانسوں میں سرگم اللہ خیر کرے
جاری ہے سانسوں میں سرگم اللہ خیر کرے
گیت کی لے ہے مدھم مدھم اللہ خیر کرے
نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے
ہرچند اس نے کھیلا مرے دل سے جان سے
"نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے"
اگرچہ قد میں وہ اونچا بہت ہے
اگرچہ قد میں وہ اونچا بہت ہے
مگر گردار کا چھوٹا بہت ہے
یوں زندگی میں رنگ میں بھرتا چلا گیا
یوں زندگی میں رنگ میں بھرتا چلا گیا
بگڑا نصیب میرا سنورتا چلا گیا
دنیا نے جو پڑھا ہے محبت کے باب میں
دنیا نے جو پڑھا ہے محبت کے باب میں
لکھا وہی ہے آپ نے دل کی کتاب میں
ایک فی البدیہہ موضوعاتی طرحی غزل
جب بھی لکھنا ہو تمہیں صرف حقیقت لکھنا
تم ریاکاری کو ہرگز نہ عبادت لکھنا
گر حوصلہ دیوں کا بڑھایا نہ جائے گا
گر حوصلہ دیوں کا بڑھایا نہ جائے گا
ظالم ہوا سے ان کو بچایا نہ جائے گا
پھولوں کا سر کچل کے جب آندھی گزر گئی
پھولوں کا سر کچل کے جب آندھی گزر گئی
شبنم کی آنکھ دھول کے تنکوں سے بھر گئی
پیچھے کوئی رستہ ہے نہ آگے کوئی منزل
پیچھے کوئی رستہ ہے نہ آگے کوئی منزل
ایسا ہے تو افلاک سے اُترے کوئی منزل