ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
ہم مسافر ہیں جہاں چاہیں ٹھہر جاتے ہیں
ہم مسا فر ہیں جہاں چاہیں ٹھہر جاتے ہیں
ٹھوکریں ملتی ہیں ہرسمت، جدھر جاتے ہیں
خواب وہ کوئی سہانا نھیں رہنے دیتا
خواب وہ کوئی سہانا نھیں رہنے دیتا
میری آنکھوں میں اجالا نھیں رہنے دیتا
حماقتوں کے چراغ لے کر، محبتوں کی سبیل ہونا
حماقتوں کے چراغ لے کر، محبتوں کی سبیل ہونا
تمہاری صحبت کا یہ ہے مطلب، قدم قدم پر ذلیل ہونا
خیالوں میں تمہارا روز آنا بھی محبت ہے
خیالوں میں تمہارا روز آنا بھی محبت ہے
ہمارا بے سبب یوں مسکرانا بھی محبت ہے
آئے ہمیں نہ اشکوں کو نایاب دیکھنا
پامال یوں ہی کرتے ہیں، غربت یہی تو ہے
آئے ہمیں نہ اشکوں کو نایاب دیکھنا
نہ دولت کام آئےگی نہ شہرت کام آئےگی
نہ دولت کام آئےگی نہ شہرت کام آئےگی
بروزِ حشر میں آقا کی الفت کام آئےگی
حافظ شیرازی کی ایک فارسی غزل کے چند اشعار کا منظوم اردو مفہوم
اے کاش مجھ پہ بھی وہ نگاہِ کرم کریںکرتے ہیں اک نظر میں جو مٹی کو کیمیا
تیری ضد اور اپنی وحشت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو
تیری ضد اور اپنی وحشت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو
جنگ پھر چھڑ گئی ہے قسمت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو
اک رات کی تنہائی اور ٹوٹا ہوا دل ہے
اک رات کی تنہائی اور ٹوٹا ہوا دل ہے
دونوں ہی الجھ بیٹھے مے پیار کے قابل ہے
کوئی چھٹکارا دلائے مجھے ویرانی سے
کوئی چھٹکارا دلائے مجھے ویرانی سےجی بہلتا نہیں دنیا کی فراوانی سے
حضرت امیر خسرؔ و دہلوی کی ایک فارسی غزل کا منظوم اردو ترجمہ
خبر ملی ہے کہ تو اے نگار آئے گا
فدائے جادہ ہوں جس سے سوار آئے گا
ہم عشق میں لکھتے ہے, کوئی مجبور نہیں ہے
ہم عشق میں لکھتے ہے کوئی مجبور نہیں ہےذراسی موچ آئی ہے کوئی معزُور نہیں
ہر ایک ٹہنی کو تلوار کر کے آیا ہوں
ہر ایک ٹہنی کو تلوار کر کے آیا ہوں
کہ سب کو صاحبِ کردار کر کے آیا ہوں
دل ہے مایوس، نظر جانب در ہے، میں ہوں
دل ہے مایوس، نظر جانب در ہے، میں ہوں
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا سفر ہے، میں ہوں
ہر ایک غم کو تھے جو دور کرنے والے لوگ
ہر ایک غم کو تھے جو دور کرنے والے لوگ
وہی ہیں اب ہمیں رنجور کرنے والے لوگ
علم و ہُنر تو دیکھیے اُس شخص کا جناب
علم و ہُنر تو دیکھیے اُس شخص کا جناب
آنکھوں سے اٌس نے کر دیا دل کو میرے خراب
اپنی تقدیر سے آگے نہیں جاتا کوئی
اپنی تقدیر سے آگے نہیں جاتا کوئی
رب کی تحریر سے آگے نہیں جاتا کوئی