ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
میں خود سے بھی یہ کہتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم
میں خود سے بھی یہ کہتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم
بہت بے کل ہو سنتا ہوں سنبھالو اپنے دل کو تم
توڑ کے دل کو کیا ملتا ہے سچ بولو
توڑ کے دل کو کیا ملتا ہے سچ بولو
دل کو تم نے سمجھا کیا ہے سچ بولو
چلو نفرت مٹانے کی کوئی تدبیر کرتے ہیں
چلو نفرت مٹانے کی کوئی تدبیر کرتے ہیں
سبھی مل کر محبت کی یہاں تفسیر کرتے ہیں
عمر بھر بھول نہ پاؤں گا میں احساں تیرا
عمر بھر بھول نہ پاؤں گا میں احساں تیرا
دو گھڑی ہی سہی یہ دل رہا مہماں تیرا
ہے اُس کے دستِ ناز میں تیر و کمان پھر
ہے اُس کے دستِ ناز میں تیر و کمان پھر
آشوبِ روزگار میں ہے میری جان پھر
ہے انتشار یہاں اور ثبات آئندہ؟
ہے انتشار یہاں اور ثبات آئندہ؟
عذاب "حال" پہ اُترا، نجات "آئندہ؟
زیست سے لڑ کے ابھر جائیں تو کچھ بات بنے
زیست سے لڑ کے ابھر جائیں تو کچھ بات بنے
ہم رگ جاں سے گزر جائیں تو کچھ بات بنے
بات هی بات میں سب اشکار کرتے رهے
بات هی بات میں سب اشکار کرتے رهے
هر ایک سے سخن راز دار کرتے رهے
"چپ رہو” اُس نے کہا اور لب مقفّل ہو گئے
"چپ رہو" اُس نے کہا اور لب مقفّل ہو گئے
لفظ کچھ اِترا رہے تھے سب مقفّل ہو گئے
اِک اِک لمحہ گِن کر کاٹ رہا ہوں
اِک اِک لمحہ گِن کر کاٹ رہا ہوں
ہجر کے دن یا پتھّر کاٹ رہا ہوں
اک روز ترے عشق کے اس سانچے میں ڈھل کر
اک روز ترے عشق کے اس سانچے میں ڈھل کر
دیکھوں گا مری جان وفا شعلوں پہ چل کر
بے قراری کا ثمر یاد ہو شاید تمھیں
بے قراری کا ثمر یاد ہو شاید تمھیں
اک محبت کا شجر یاد ہو شاید تمھیں
ڈھل کےاشعار میں آ، سادہ بیانی میں اتر
ڈھل کےاشعار میں آ، سادہ بیانی میں اتر
اپنا کردار نبھا اور کہانی میں اتر
ہو جائے اب تباہ نہ گلزارِ اعتبار
ہو جائے اب تباہ نہ گلزارِ اعتبار
طوفاں سے لڑ رہے ہیں سب اشجارِ اعتبار
ہر آدمی کا جیسے خدا ہے علیحدہ
جو شخص زندگی سے ہوا ہے علیحدہ
وہ مجھ کو مجھ سے کرکے گیا ہے علیحدہ
مرزا غالب کی غزل پر شگفتہ تضمین
وہاں دیکھ لیتے ہیں اک روز فتنہ
"جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں"
شکایت ہے مجھے ان نو جوانوں سے
شکایت ہے مجھے ان نو جوانوں سے
بہت مرعوب ہیں جو بے زبانوں سے
درمیاں اس نے حیا کی جو ردا تانی ہے
درمیاں اس نے حیا کی جو ردا تانی ہے
سامنے میرے یہی ایک پریشانی ہے
ایک فی البدیہہ غزل: نذرِ مولانا ابوالکلام آزاد
بیمارِ محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے
’’کچھ اور ہی سمجھے تھے ہوا اور ہی کچھ ہے‘‘
اب کرو کوششیں دنیا کو جگانے کے لیے
اب کرو کوششیں دنیا کو جگانے کے لیے
تھک چکیں آنکھیں نئے خواب دکھانے کے لیے
دو قافیوں کی ایک غزل
لفظوں میں تِرے حسن کی تنویر بسا لوں
اے کاش کہ اشعار کی توقیر بڑھا لوں
اپنی تاریخ نہیں خود سے مٹانے والا
اپنی تاریخ نہیں خود سے مٹانے والا
میں نہیں عظمتِ رفتہ کو بھلانے والا
کرکے برباد مجھے پیار جتانے والا
کرکے برباد مجھے پیار جتانے والا
میرا قاتل ہے وہی اشک بہانے والا
ہر لفظ ہے ابہام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ
ہرلفظ ہے ابہام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ
کوئی نہیں پیغام، نہ چِیدہ نہ چُنیدہ
رہ حیات پہ کب اپنی شرمسار چلے
رہ حیات پہ کب اپنی شرمسار چلے
جہاں جہاں بھی چلے ہم صدافتخار چلے
دیکھ رہے ہیں!
ہاتھوں پہ دھرے ہاتھ کدِھر دیکھ رہے ہیں
چپ چاپ کھڑے جلتا نگر دیکھ رہے ہیں
کروں میں جان و جگر اب نثار مشکل ہے
کروں میں جان و جگر اب نثار مشکل ہے
ہو تم.پہ پھر سے مجھے اعتبار مشکل ہے