ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
میں سچا مردِ مؤمن ہوں مجھے اخبار مت سمجھو
میں سچا مردِ مؤمن ہوں مجھے اخبار مت سمجھو
ہے اب تک حوصلہ باقی مجھے بیمار مت سمجھو
یہ اس کا وصف ہے یارو عداوت بھول جاتا ہے
اسے جب روکھا پھیکا ماں کا لقمہ یاد آتا ہےتو تر´ بیوی کے کھانوں کی وہ لذّت بھول جاتا ہے
نیکی شمار ہونے لگی ہے حساب میں
نیکی شمار ہونے لگی ہے حساب میں
ملتا ہے اب سکوں مجھے کارِ ثواب میں
آئینہ زندگی میں ہر عکس ہے جدا جدا
آئینہ زندگی میں ہر عکس ہے جدا جدا
کوئی بہت اداس تو کوئی ہے کھلا کھلا
میں جانتا ہوں حقیقت شناوری کیا ہے
میں جانتا ہوں حقیقت شناوری کیا ہے
مگر بیاں کروں میری بساط ہی کیا ہے
وہ آتشِ غم کو ہوا دینے لگے
وہ آتشِ غم کو ہوا دینے لگے
ہم کو محبت کی سزا دینے لگے
امیر ِ شہر جب شیطان بن جائے
امیر ِ شہر جب شیطان بن جائے
رعیت کیوں نہ پھر حیوان بن جائے
چرانا جیب سے میرے حلال تھوڑی ہے
چرانا جیب سے میرے حلال تھوڑی ہے
کما کے لایا ہوں چوری کا مال تھوڑی ہے
راہ میں گر ہمیں قندیل جلانا ہو گا
راہ میں گر ہمیں قندیل جلانا ہو گا
ان ہواؤں کو بھی آداب سکھانا ہو گا
یوں ہی کہا تھا اُس نے مجھے تم پاگل ہو
یوں ہی کہا تھا اُس نے مجھے تم پاگل ہو
اے میرے دل کیوں ہو گم صم پاگل ہو
میں اشکِ ندامت بہاؤں بھی کیسے
میں اشکِ ندامت بہاؤں بھی کیسے
غمِ ہجر تم کو سناؤں بھی کیسے
کسی کی یاد میں خود کو بھلائے بیٹھے ہیں
کسی کی یاد میں خود کو بھلائے بیٹھے ہیں
لبوں پہ جعلی ہنسی بھی سجائے بیٹھے ہیں
مستمر وقت، سنبھل کر تو دکھا!
مستمر وقت، سنبھل کر تو دکھا!
میرے جیسا کوئی پل کر، تو دکھا!
ٹھیک نہیں ہے رونا دھونا سمجھے نا
ٹھیک نہیں ہے رونا دھونا سمجھے نا
فرقت میں آنکھیں نہ بھگونا سمجھے نا
منہ سے جو لفظ نکلا، وہ تھا کتاب جیسا
منہ سے جو لفظ نکلا، وہ تھا کتاب جیسا
مجھ کو سمجھتے کیسے، میں تھا نصاب جیسا
اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے
اندھیروں سے الجھنے کی کوئی تدبیر کرنا ہے
کوئی روزن کسی دیوار میں تسخیر کرنا ہے
مری حقیقت مری کہانی سے مختلف ہے
غزل: احمد کمال حشمییہ خامشی ہے، یہ بے زبانی سے مختلف ہے
یہ لفظ اپنے سبھی معانی سے مختلف ہےجو نقش اول ہے نقش ثانی سے مختلف ہے
کیسا تمھارے شہر کا دستور ہوگی
جس دن سے وہ بھی صاحبِ مقدورہوگیا
اک سیدھا سادہ شخص بھی مغرورہوگیا
توڑا ستم رَوِش سے بہت اُس نے ہٹ کے آج
توڑا ستم رَوِش سے بہت اُس نے ہٹ کے آج
دل نے مقابلہ بھی کیا خوب ڈٹ کے آج
لَوٹ رہے ہو ہاتھ چھڑا کر شہزادے
لَوٹ رہے ہو ہاتھ چھڑا کر شہزادے
کیا ملتا ہے مجھ کو رُلا کر شہزادے
ہر بات میری رد کرو اور خوش رہو
ہر بات میری رد کرو اور خوش رہو
مجھ پر ستم کی حد کرو اور خوش رہو
راہ تکتی ہے تری، میری نظر شام کے بعد
راہ تکتی ہے تری، میری نظر شام کے بعد / اور ہوجاتی ہے پھر چشم یہ تر شام کے بعد // اجنبی لگتے ہیں دیواربھی در بھی چھت بھی / میرا گھر لگتا نہیں ہے مرا گھر شام…