ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
اس دل کی باتوں میں آ کر افسوس یہ ہم کیا کر بیٹھے
اس دل کی باتوں میں آ کر افسوس یہ ہم کیا کر بیٹھے
جو چیز نہ ملنے والی تھی ہم اس کی تمنا کر بیٹھے
ہنس ہنس کے نہ یوں ڈال محبت کی نظر اور
ہنس ہنس کے نہ یوں ڈال محبت کی نظر اور
روغن کی ہو بارش تو بھڑکتے ہیں شرر اور
وحشت ہوئی ذرا بھی کم، ایسا کبھی نہیں ہوا
وحشت ہوئی ذرا بھی کم، ایسا کبھی نہیں ہوا
آیا سکونِ دل بہم، ایسا کبھی نہیں ہوا
میں زاہد تو نہیں ہوں رند ہوں مخمور رہتا ہوں
میں زاہد تو نہیں ہوں رند ہوں مخمور رہتا ہوں
مگر میخانے سے بنتِ عنب سے دور رہتا ہوں
تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر کب سے
تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر کب سے
خلوص رکھا ہے میں نے سنبھال کر کب سے
ہر لمحہ آتش عشق مجھ کو جلا رہی ہے
ہر لمحہ آتش عشق مجھ کو جلا رہی ہے
کبھی تو ہنسا رہی ہے پر اکثر رلا رہی ہے
مرے آئینے پہ پتّھر سے بہت وار ہوا
مرے آئینے پہ پتّھر سے بہت وار ہوا
سامنا کرنا کسی کا مجھے دشوار ہوا
فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو
فہم و ادارک میں آؤ نہ اگر ممکن ہو
عکسِ پُر تاب دکھاؤ نہ اگر ممکن ہو
عشق میں بات کچھ اس طرح بیاں ہوتی ہے
عشق میں بات کچھ اس طرح بیاں ہوتی ہے
آنکھ سب کہتی ہے خاموش زباں ہوتی ہے
جب لکھامیں نے بہت سونچ سمجھ کر لکھا
جب لکھامیں نے بہت سونچ سمجھ کر لکھا
عکسِ آئینہ ہے ، آ ئینے کے اندر لکھا
یہ اجتناب مرے اضطرار سے تو نہیں
یہ اجتناب مرے اضطرار سے تو نہیں
گریز پائی عدم اعتبار سے تو نہیں
تیری ضد اور اپنی وحشت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو
تیری ضد اور اپنی وحشت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو
جنگ پھر چھڑ گئی ہے قسمت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو
مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے
مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے
سو بے چینی کہیں بھی کم نہیں ہے
شکست خواب کی روداد کیا کہیں تم سے
شکست خواب کی روداد کیا کہیں تم سے
ہوئے ہیں کس طرح برباد کیا کہیں تم سے
صبح رونے بیٹھے ہم شام کر گئے
صبح رونے بیٹھے ہم شام کر گئے
جگر کے ساتھ کچھ ایسا کام کر گئے
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی ایک زمین میں تین فی البدیہہ غزلیں
برقی تھے گرچہ شاعرِ گوشہ نشین مگرکہتے ہیں سب یہ اہل نظر دیدہ ور گئے