ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
غیروں کی بات پر ہی بس کان دھرا ہے آپ نے
غیروں کی بات پر ہی بس کان دھرا ہے آپ نے
حالِ دلِ حزیں کہاں ہم سے سنا ہے آپ نے
میں بھی اپنی خوش بیانی کے مزے لیتا رہا
وہ مرے غم کی کہانی کے مزے لیتا رہا / میں بھی اپنی خوش بیانی کے مزے لیتا رہا
تمہارے عدل کا معیار دیکھنے کے لیے
ہُوا ہوں خود ہی گرفتار دیکھنے کے لیے / تمہارے عدل کا معیار دیکھنے کے لیے
جو آفتاب کی کرنوں سے جل گیا ہوگا
جو آفتاب کی کرنوں سے جل گیا ہوگا
تو ماہتاب یقیناً پگھل گیا ہوگا
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
عنایتیں یہ مرے چارہ گر کی ہیں مجھ پر
’’وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے‘‘
دنیا بھی عارضی ہے مسکن بھی عارضی ہے
دنیا بھی عارضی ہے مسکن بھی عارضی ہے
سانسوں کی انجمن میں گلشن بھی عارضی ہے
کیا کہوں تم نے کیا کہا تھا مجھے
کیا کہوں تم نے کیا کہا تھا مجھے
صرف باتیں تھیں کیا پتا تھا مجھے
تیر اندھیرے میں چلایا چل گیا
عشق کا لگتا یے جادو چل گیا
اس کے سانچے میں مرا دل ڈھل گیا
سر میں جتنی تھی سمائی سر گرانی ہو چکی
سر میں جتنی تھی سمائی سر گرانی ہو چکی
ختم میری داستاں اے یارِ جانی ہو چکی
دیکھ کر ان شوخ آنکھوں میں سنورنے کا خیال
دیکھ کر ان شوخ آنکھوں میں سنورنے کا خیال
ہے خیالِ زندگی راغبؔ کہ مرنے کا خیال
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
بے باک نگاہوں میں الجھن سی نظر آئی
دیکھی جو کنکھیوں سے اک شوخ کی انگڑائی
ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی
ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی
مجھ سا مجھ میں اتر رہا ہے کوئی
ماتمِ گُل پہ دوستو ! کون رونے آئے گا
ماتمِ گُل پہ دوستو ! کون رونے آئے گا
جنگلوں کی آگ سے شہر جل جائے گا
کرکے قلم فروخت قلم کار گر پڑے
کرکے قلم فروخت قلم کار گر پڑے
قدموں پہ میرِ شہر کے فن کار گر پڑے
عکس میرا چور ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں
کیا نثارؔ اب کہ تمہارے ذہن و دل کا انقلاب
کچھ ثمر بھی لے کے آیا یا ہو اکچھ بھی نہیں!
کہیں صدف کہیں گوہر کی لاش پانی میں
کہیں صدف کہیں گوہر کی لاش پانی میں
چہار سمت ہیں پتھر کی لاش پانی میں
ہمارے شہر میں رہتے ہیں مارنے والے
ہمارے شہر میں رہتے ہیں مارنے والے
خیال رکھنا یہاں شب گزارنے والے
مت سمجھنا کہ مجھے میری ضرورت لائی
مت سمجھنا کہ مجھے میری ضرورت لائیتیرے در پر تو مرے یار تری چاہت لائی
کسی کے پاس بھی اب دل نہیں ہے
کسی کے پاس بھی اب دل نہیں ہے
کوئی بھی پیار کے قابل نہیں ہے
اپنے بھی غیروں کے جیسے غیر بھی اپنے لگتے ہیں
اپنے بھی غیروں کے جیسے غیر بھی اپنے لگتے ہیں
تیرے دکھ کو قید کروں تو لفظ تڑپنے لگتے ہیں
گستاخ ہیں نگاہیں ظالم جوانیاں ہیں
گستاخ ہیں نگاہیں ظالم جوانیاں ہیں
پھولوں کی وادیوں میں چنچل دِوانیاں ہیں