ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
غالب اکیڈمی کے سالانہ طرحی مشاعرے میں میری طبع آزمائی
عہدِ رواں پہ کرنا ہے برقی جو تبصرہ
ایسے میں تجھ کو جرات رندانہ چاہیئے
تجھے غرور پسند اور انکسار مجھے
وجود اپنا بہرحال خاک ہے پھر کیوں
"تجھے غرور پسند اور انکسار مجھے"
کون جانے کہاں، کب، کدھر جائیں گے
کون جانے کہاں کب کدھر جائیں گے
ہم بھی دریا میں اک دن اتر جائیں گے
خوب صورت ہے صنم ٹوٹ نہ جائے رکھو
خوب صورت ہے صنم ٹوٹ نہ جائے رکھو
قابل دید ہے شو کیس سجائے رکھو
اے صنم رونق بازار بڑھائے رکھو
اے صنم رونق بازار بڑھائے رکھو
قابل دید ہے شو کیس سجائے رکھو
ایک خستہ تہی دست بھی رکھتا ہے بڑا دل
ایک خستہ تہی دست بھی رکھتا ہے بڑا دل
قسمت ہے شبِ تار مگر ماہ لقا دل
امام خمینی کی فارسی غزل کا منظوم اردو ترجمہ
راز کا اپنے میں اک راز گشا چاہتا ہوں
مجھ کو جو درد ہے میں اس کی دوا چاہتا ہوں
اے دل یہ روز روز کی آہ و فغاں سے ہم
اے دل یہ روز روز کی آہ و فغاں سے ہم
بیزار ہو چکے ہیں تری داستاں سے ہم
کسے ہے آرزو صاحب زمیں کو آسماں کر لیں
کسے ہے آرزو صاحب زمیں کو آسماں کر لیں
تمنا اتنی ہے تقدیر اپنی ضوفشاں کر لیں
اجازت دے کہ اپنی داستانِ غم بیان کر لیں
اجازت دے کہ اپنی داستانِ غم بیان کر لیں
پھپھولے دل کے پھوڑے بزم میں آہ وفغاں کر لیں
زندگی نے روند ڈالا بہتری کے نام پر
زندگی نے روند ڈالا بہتری کے نام پر
موت تک ہم آ گئے ہیں زندگی کے نام پر
ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں
ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں
مسخ اتنا اخوّت کا چہرہ ہے کیوں
کسی بھی خاک میں پیدا شدہ نمی کی طرح
کسی بھی خاک میں پیدا شدہ نمی کی طرح
مجھے عزیز ہے تو میری زندگی کی طرح
خشک ہو جائے ہر اک بحرِ بیاں ممکن ہے
خشک ہو جائے ہر اک بحرِ بیاں ممکن ہے
خامشی کی تری تفہیم کہاں ممکن ہے
عجیب حال ہے دل کا، عجب اُداسی ہے
عجیب حال ہے دل کا، عجب اُداسی ہے
ملی یہ کیسی بہ نامِ طرب اُداسی ہے
تباہ حال سہی پر خدا سے ڈرتے ہیں
تباہ حال سہی پر خدا سے ڈرتے ہیں
صنم کے بندے تو کافر صنم پہ مرتے ہیں