ٹرینڈنگ
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
- 72 حوریں: کتنی حقیقت؟ کتنا فسانہ؟
- اڑیسہ کا المناک ٹرین حادثہ
- پارلیمنٹ میں سنگول کا پیغام
- کشمیر میں جی 20 سمٹ: خطہ پیر پنجال کے لیے کتنی سود مند؟
براؤزنگ زمرہ
غزل
شاعر مشرق علامہ اقبال اور احمد علی برقی اعظمی
گُنگُناتے ہیں جسے ہر وقت برقی اعظمی
داد دیں اقبال کو قومی ترانے کے لئے
بلبلہ جیسے گریزاں رہے طغیانی سے
بلبلہ جیسے گریزاں رہے طغیانی سے
ہچکچاتے ہیں سبھی جان کی قربانی سے
کیوں آئینے کے آگے جاتے جھجک رہا ہے
کیوں آئینے کے آگے جاتے جھجک رہا ہے
وہ کیسا داغ ہے جو تجھ کو کھٹک رہا ہے
کون کہتا ہے کہ دنیا میں فقط یاس ہے یار
کون کہتا ہے کہ دنیا میں فقط یاس ہے یار
میں نہیں مانتا یہ بات، یہ بکواس ہے یار
رہ گئی بن کے اک داستاں زندگی
رہ گئی بن کے اک داستاں زندگی
ہو گئی پیار سے بدگماں زندگی
ذراسا بھی جو دل میں جزبۂ ایمان رکھتے ہیں
ذراسا بھی جو دل میں جزبئہ ایمان رکھتے ہیں
لگاکر دل سے آقا کا وہ ہر فرمان رکھتے ہیں
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
شمعِ دل وہ جلاتی رہی رات بھر
خواب میں آتی جاتی جاتی رہی رات بھر
آنکھوں میں کیوں ہے یوں چمک شاید اُنھیں خبر نہیں
آنکھوں میں کیوں ہے یوں چمک شاید اُنھیں خبر نہیں
کیسی تھی اُن کی اک جھلک شاید اُنھیں خبر نہیں
انور مسعود اور احمد علی برقی اعظمی
پجیرو بھی کھڑی ھے اب تو ان کی کار کے پیچھے
عظیم الشان بنگلہ بھی ھے سبزہ زار کے پیچھے
دامن دراز عشق میں ہارے بہت ملے
دامن دراز عشق میں ہارے بہت ملے
ہم کو گمان کم کا تھا بارے بہت ملے
انکار اعتراف ہو اقرار اعتراض
انکار اعتراف ہو اقرار اعتراض
پھر آپ کی طرف سے ہو سو بار اعتراض
جدا زمانے سے کچھ بھی اگر بنایا جائے
جدا زمانے سے کچھ بھی اگر بنایا جائے
جنونِ شوق کو ، شوریدہ سر بنایا جائے
سب کے دانتوں تلے دب گئیں انگلیاں
سب کے دانتوں تلے دب گئیں انگلیاں
جب ہماری تمھاری ملیں انگلیاں
مست مگن ہیں خود کو بے پروا کر کے
مست مگن ہیں خود کو بے پروا کر کے
خود جلتے ہیں دھوپ میں ہم سایہ کر کے
احمد فراز اور احمد علی برقی اعظمی
عہدِ حاضر میں ہے ہر شخص پریشاں جاناں
نہیں انسان سے بڑھ کر کوئی حیواں جاناں
رِس رہا ہے تعلق کی رگ رگ سے خوں، کیا کروں
رِس رہا ہے تعلق کی رگ رگ سے خوں، کیا کروں
کتنے خستہ ہیں قصرِ وفا کے ستوں، کیا کروں
پیاسا اپنے نام کے آگے اور دریا لکھا اُن کو
پیاسا اپنے نام کے آگے اور دریا لکھا اُن کو
اس کا مطلب کیا ہے اے دل سمجھاؤں میں کیا اُن کو
ماضی کے دریچوں میں الجھتے نہیں دانا
الزام سے ہو کر ہی مخلص کو گزرنا ہے
اخلاص کے جامہ سے نکلتے نہیں دانا
ہم کو اس درجہ پسند آیا تھا داغِ امّید
ہم کو اس درجہ پسند آیا تھا داغِ امّید
ہم نے جلتا ہی رکھا ہائے چراغِ امّید
آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا
آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا
دل میں تھا عشق تو آنکھوں کو بھی نم رکھنا تھا
اپنی یادوں کا سرو ساماں جلاتے جائیے
جارہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے
’’اپنی یادوں کا سرو ساماں جلاتے جائیے‘‘
میرے خونِ جگر میں سنی انگلیاں
میرے خونِ جگر میں سنی انگلیاں
کیسے دیکھوں وہ مہندی بھری انگلیاں
اُس نے پوچھا تھا کبھی کیا حال ہے
اُس نے پوچھا تھا کبھی کیا حال ہے
پوچھ مت اے زندگی کیا حال ہے
اچھا ہوا کہ سر سے مصیبت ہی ٹل گئی
اچھا ہوا کہ سر سے مصیبت ہی ٹل گئی
تصویر اک حسین کی دل سے نکل گئی