ٹرینڈنگ
- پہلگام حملہ : ایسے حملوں سے پہلے چوکسی کیوں نہیں برتی جاتی؟
- فلسطین اور عرب حکمراں: اسے دوستی کا نام دیں گے یا دغا کا؟
- نفقۂ مطلّقہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
- ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا سیاسی وژن
- الیکشن، نت نئے ایشوز اور ہمارا رول
- نیامشن نیا ویژن
- بھڑوا، کٹوا، ملا آتنک وادی …
- مملکت سعودی عرب: تاریخ، معاشی چیلنجز اور حکمت عملی
- بچوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، اجرت کی نہیں
- اُتر کاشی سے مسلمانوں کی نقل مکانی
براؤزنگ زمرہ
غزل
امیرِ شہر کا پیشہ بہت پرانا ہے
امیرِ شہر کا پیشہ بہت پرانا ہے
ابھی جو دیتے ہیں نعرہ بہت پرانا ہے
محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے
محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے
حصار ذات سے باہر خرد مشکل سے آتی ہے
مجھ پہ یہ تیرا کرم اور عنایت کیسی
مجھ پہ یہ تیرا کرم اور عنایت کیسی
آج امڈی ہے تِرے دل میں محبت کیسی
مانا جیا کیے ہیں بڑی کمتری سے ہم
مانا جیا کیے ہیں بڑی کمتری سے ہم
بہتر ہزار سال کی خواجہ گری سے ہم
صبح پہ اور کبھی شام پہ رونا آیا
صبح پہ اور کبھی شام پہ رونا آیا
دل گرفتہ کو ہر اک گام پہ رونا آیا
ہاتھ پر ہاتھ دهرے سوچ میں بیٹها کیا ہے
ہاتھ پر ہاتھ دهرے سوچ میں بیٹها کیا ہے
ہو نہ تدبیر تو تقدیر کا شکوہ کیا ہے
شدتِ شوق میں تجدیِد گماں چاہتا ہے
شدتِ شوق میں تجدیِد گماں چاہتا ہے
قلبِ صد وہم چراغوں سے دھواں چاہتا ہے
مرے پہلو میں وہ بیٹھا ہوا تھا
مرے پہلو میں وہ بیٹھا ہوا تھا
کسی کی یاد میں کھویا ہوا تھا
وہ باتوں باتوں میں خنجر اتار دیتا ہے
جگر سنبھال کے میں اس سے بات کرتا ہوں
"وہ باتوں باتوں میں خنجر اتار دیتا ہے"
ادب سے نام لیا، مسکرا کے بھول گئے
ادب سے نام لیا، مسکرا کے بھول گئے
یہ کیا کہ لوگ مرا دل جلا کےبھول گئے
یہ زعم تھا کہ وہ میرے سوا کسی کی نہیں
یہ زعم تھا کہ وہ میرے سوا کسی کی نہیں
میں لٹ گیا تو یہ جانا انا کسی کی نہیں
کچھ لوگ نصیحت کر کے ہی دل اپنا بھر لیتے ہیں
کچھ لوگ نصیحت کر کے ہی دل اپنا بھر لیتے ہیں
اپنا تو غم ذرا بھی نہیں اوروں کے غم میں گھٹتے ہیں
میکدہ سے وہ دور مے کشی جاتی رہی
میکدہ سےوہ دور مے کشی جاتی رہی
کاروان دیں سے اب زور حیدری جاتی رہی
جب بھی ظالم کا کہیں دستِ ستم اٹھتا ہے
جب بھی ظالم کا کہیں دستِ ستم اٹھتا ہے
تو خلاف اس کے ہمارا ہی قلم اٹھتا ہے
وفا کا کیا صلہ دیا ہے تم نے
وفا کا کیا صلہ دیا ہے تم نے
دل نازک پہ پتھر چلادیا ہے تم نے
اس جہاں میں اپنا ہوا ہے نہ ہوگا کوئی
اس جہاں میں اپنا ہوا ہے نہ ہوگا کوئی
بے وفا تو سب ہیں با وفا نہ ہوگا کو ئی
ہے سماعت شب گزیدہ روشنی باتیں تری
ہے سماعت شب گزیدہ روشنی باتیں تری
لفظ پر کرتی ہیں طاری بے خودی باتیں تری
ناپائیدار ہیں اہل دنیا سب سے رشتہ توڑ
ناپائیدار ہیں اہل دنیا سب سے رشتہ توڑ
دنیا سے رشتہ توڑ دے رب سے رشتہ جوڑ
نہ دیکھ تو اے مسافر تھکان کی جانب
نہ دیکھ تو اے مسافر تھکان کی جانب
"سفر زمین سے ہے آسمان کی جانب"
ان کے عشق میں جب سے گرفتار ہم ہوئے
ان کے عشق میں جب سے گرفتار ہم ہوئے
رسوائے عام پھر سر بازار ہم ہوئے
میں مظلوم سہی جفاکار نہیں ہوں
میں مظلوم سہی جفاکار نہیں ہوں
تڑپادوں کسی کومیں حقدار نہیں ہوں
درمیاں ابر کے ہیں آب سے نا واقف ہیں
درمیاں ابر کے ہیں آب سے نا واقف ہیں
ہم کہ بے مہریِ احباب سے نا واقف ہیں
مناجات باری تعالی
میرے بیڑے کو سمندر سے کنارا کر دے
میری بگڑی بن جائے گر تو اشارہ کر دے
شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں
ہر کوئی خود کو سمجھتا ہے امیر شہر آج
’’ شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں‘‘